وادی بناہ سے شہر مدینہ قسط سوم

2825

ذوالفقار احمد عارش

آزاد کشمیر کے ضلع کوٹلی میں واقع وادی “وادی بناہ ” شوالک کی پہاڑیوں کے درمیان ایک خوبصورت وادی ہے ۔ جسکی لمبائی تقریباً 30کلو میٹر اور چوڑائی اوسطاً چار سے پانچ کلو میٹر ہے ۔ وادی کا زیادہ حصہ زرخیز میدانوں پر مشتمل ہے۔ اور وادی شمالاً جنوباً پھیلی ہوئی ہے۔ شوالک کی پہاڑیاں بھی شمالاً جنوباً پھیلی ہوئی ہیں ۔ وادی بناہ جو کہ زمانہ قدیم سے36پنڈ (دیہاتوں) پر محیط ہے۔ جو کہ اب منقسم شدہ ہے۔ اور اس کے کچھ دیہات انڈیا کے زیر تسلط مقبوضہ کشمیر کی طرف ہیں ۔
قدیم تاریخ
وجہ تسمیہ:-
قرین قیاس ہے کہ وادی بناہ سنسکرت زبان کا لفظ “بنا वान । पात्रम् bāna , جسکی ادائیگی Baa-nah ہے ۔جسکا مطلب پاتر ،طشت،پیالہ ،پلیٹ ،پانی کا جار یا ایسے کسی برتن کو اسکو جب اناج سے بھر دیا جائے اور پسینہ آئے، کا ہے۔
یہ اس لیے اس کے قریب قریب لگتا ہے کہ وادی کو اگر پیر بڈھیسر یا اونچی جگہ سے دیکھا جائے تو اس کی شکل بالکل ایسی ہی ہے۔اردگرد پہاڑ ہیں اور درمیان کا علاقہ میدانی ہے جہاں پہلے کافی نالہ بان تھیں اور علاقہ زرخیز ہے۔
دوسرا” بنا ” جنگل کو بھی کہتے ہیں ۔
اور پنجابی /پہاڑی میں BANNÁ اس ایریا کو کہتے ہیں جس کی حد بندی کی گئی ہوں. چونکہ اس ایریا کے اردگرد پہاڑیاں ہیں شاید اسی لیے اس کو ایسا نام دیا گیا ہو ۔
بنا (بنرا) دولہا یا سجے سنورے آدمی کو بھی کہتے ہیں۔ اس کی خوبصورتی کی وجہ سے شاید یہ نام دیا گیا ہو ۔ خاص کر بہار اور ساون کے موسم میں تو اس کا حسن جوبن پر ہوتا ہے ۔
وادی ثقافتی ،تہذیبی، لسانی اور سیاسی اعتبار سے وادی کشمیر کی نسبت جموں اور پنجاب کے علاقوں سے زیادہ قریب ہے ۔ ماضی بعید یہ علاقہ موریہ اور کشانی سلطنتوں کا حصہ رہی ۔
اس علاقے میں اسلام کی آمد چودھویں صدی عیسوی میں ہوئی ۔یہ وہی زمانہ تھا ۔جس وقت دہلی میں تغلق سلطنت لکا دور تھا۔
کشمیر میں چودھویں صدی عیسوی میں صوفی بزرگ بلبل شاہ ،شاہ ہمدان جیسے صوفیاء اکرام کی تبلیغ کی وجہ سے کشمیر کی بڑی آبادی مسلمان ہوئی۔ شاہ میر نے اسی حکومت کے زیر سایہ حکومت سنبھالتےہوئے اسلام کو فروغ دیا ۔
1819 ء کے بعد سکھوں نے مقامی خاندانوں کی حکومت کا خاتمہ کر دیا ۔ یہ علاقہ تخت لاہور کے ماتحت رہا ۔
1846ء میں معائدہ امرتسر کے تحت جب مہاراجہ گلاب سنگھ نے جدید ریاست جموں کشمیر کی بنیاد رکھی ۔تو وادی بناہ بھی ڈوگرہ حکومت کے ماتحت رہا ۔یہ علاقہ انتظامی طور پر ضلع میرپور کا حصہ رہا ۔اور سیری کو ایک سب ڈویژن کا درجہ دیا گیا۔
اور ایسا تقسیم ہند سے کافی پہلے ہو چکا تھا ۔
جب 1911ء میں جموں کشمیر میں ڈوگرہ حکومت نے مردم شماری کروائی تو ضلع میر پور کا مسلم تناسب اندازاً 80 فیصد تھا ۔ اور وادی بناہ میں بھی یہی تناسب تھا ۔ وادی میں ہندو آبادی کی اکثریت سیری شہر میں رہتی تھی۔ جبکہ دیہاتوں میں ان کے گھر کہیں کہیں تھے۔
وادی بناہ کا زیادہ علاقہ زیادہ تر راجوری اور جموں کے مقامی حکمرانوں کے ماتحت رہا ۔ یہاں تک کے سکھ دور حکومت میں بھمبر کے چب راجپوتوں کے ماتحت رہا ۔

1947ء میں وادی کا تھوڑا سا جنوبی حصہ اور مشرق کی طرف بلند و بالا پہاڑ پیر بڈھیسر بھارت کے قبضے میں چلے گئے
جغرافیہ:-
وادی کے شمال مغرب میں کوٹلی شہر ، مغرب میں چڑھوئی کی وادی ،شمال میں نکیال، مشرق میں راجوری ،اور جنوب میں نوشہرہ کا قبضہ واقع ہے
وادی بناہ کی اہمیت :-
غیر منقسم کشمیر میں جو اہمیت وادی بناہ کے مرکز سیری بازار کو حاصل تھی ۔وہ 1947ء میں کشمیر کی تقسیم ہونے کے بعد ختم ہوگئی۔
گو کہ مغل روڈ نوشہرہ کو راجوری سے ملاتی تھی۔ اور پھر سرینگر تک چلی جاتی تھی۔ چونکہ راستہ لمبا تھا ۔اور گاڑیاں مہیا نہیں ہوتی تھی۔ اسلئے خچروں گدھوں اور گھوڑوں پر جو سامان بھی میرپور سے اور راجوری کے درمیان جاتا تھا وہ سیری ہی کے راستے جاتا تھا ۔ (مزید برآں سیری نوشہرہ ,راجوری اور کوٹلی تقریبا تقریبا ایک ہی جتنے فاصلے پر پڑتے ہیں ۔
ایک کچی سڑک نوشہرہ کو کوٹلی سے ملاتی تھی۔اور پھر پونچھ تک چلی جاتی تھی
1947ء میں مہاراجہ ہری سنگھ کے وزیر مال سردار بلدیو سنگھ کو ہندو آبادی کے ساتھ مسلمان جھتوں نے گھیر لیا تھا ۔ تو ڈوگرہ اور انڈین فوج اسی نوشہرہ ٹائیں روڈ کو استعمال کیا تھا ۔
وادی بناہ میری “جنم بھومی ” جائے پیدائش ہے۔ پہاڑوں کے درمیان گری یہ سرسبز وادی رب کریم کی عظمت کا ایک شاہکار ہے۔ میرے بچپن کے دن تھے۔بل کھاتیں صاف شفاف نالہ بانیں ،سر سبز چیڑھ کے درختوں سے اٹے پہاڑ،دل کو لبھانے والی ہوائیں ۔خوبصورت پرندے،دیسی اور خالص غذائیں یہ سچ ہے، اگر وادی کے جنوب اور مشرق کی طرف انڈیا کا قبضہ نہ ہوتا اور مقبوضہ وادی کی طرف راستہ یہاں ختم نہ ہوتا۔ (LOC)نہ ہوتی ، اور یہاں کے رہنے والے اپنے ہاتھوں سے قدرتی حسن کو داغدار نہ کرتے ،ذات برادری میں حد درجہ عصبیت نہ رکھیں
اور برکت و سکینت کے لیے رب کریم کے آگے سربسجود رہیں، اور اس وَحْدَہٗ لا شَرِیک رب کا ذکر بلند کریں ا،ور ایک دوسرے کے ساتھ معاملات اچھے رکھیں۔،پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کریں تو قریب قریب یہ علاقہ جنت کی جو نشانیاں بتائی گئی ہیں اس کا ہلکا سا عکس دکھاتا۔
پھر بھی باقی دنیا سے اگر کمپیئر کیا جائے تو یہاں کے لوگ مہمان نواز، ایک دوسرے کی خوشی غمی میں شریک ،درد دل رکھنے والے اور سادہ مزاج لوگ ہیں۔ قدیم وقتوں میں حاتم طائی کا نام لوگوں نے سنا تھا۔ لیکن یہاںمحسن وادی بناہ سردار عبدلعزیز
مرحوم کی خدمات اسی طرز کی تھی۔ گرچے ان کی وفات کے بعد ان کے خواب کی اسطرح سے تکمیل نہیں ہونے دی گئی۔علاوہ ازیں بہت سے شہری خاص کر بیرون ملک مقیم۔باشندے وادی میں فلاحی کاموں کے لیے پیش پیش رہتے ہیں۔ اگر سالانہ حکومتی کارکردگی اور عوام کے فلاحی کاموں کو کمپیئر کیا جائے تو عوام کی شمولیت با نسبت حکومتی کاموں کے کہیں زیادہ ہو گی۔
موجودہ اور پہلے دور میں وادی اپنی زرخیزی کی وجہ سے مشہور ہے۔حالانکہ بارانی ہے۔ اور فصلوں کی پیداوار کے لیے موزوں ہے۔
مستقبل میں سب سے بڑا مسئلہ ، بڑھتی ہوئی آبادی , پینے کا پانی،ماحولیاتی تبدیلی،خاص کر بارشوں کا وقت پر نہ ہونا , برین ڈرین پڑھے لکھے جوانوں کا روزگار نہ ملنے کی وجہ سے بیرون ملک شفٹ ہونا،برادری ازم کی سیاست کی ڈگڈگی پر عوام کا مائل ہونا ,اور انتظامی پوسٹس پر برادری پرور اور نااہل لوگوں کا ہونا ایک تابناک مستقبل میں رکاوٹ ہے۔
پیر بڈھیسر :-
وادی کے مشرق میں 500 فٹ بلند پہاڑ پیر بڈھیسرمسلمان اسے پیر بڈھیسر جبکہ ہندو اسے ویر بدھیشور کہتے ہیں۔اس پہاڑ کی چوٹی پر ویر بدھیشورکا مندر آج بھی موجود ہے۔اور ہندؤں لوگ اپنی منتوں کے لیے ایک درخت کے ساتھ گھنگروں باندھ جاتے ہیں ۔
جبکہ پہاڑ کی مشرق والی اترائی میں ایک مسلمان بزرگ کا مزار بھی ہے ۔
پہاڑ پر خاصا میدانی علاقہ ہے جس پر آج کل بھارتی فوج کا کیمپ بنا ہوا ہے۔
ایک مقامی روایت کے مطابق ماضی میں کبھی یہاں میلہ بھی لگتا تھا ۔پہاڑ چیڑھ کے درختوں سے گھرا ہوا ہے۔
اس پہاڑ پر بھارتی فوج نے 1947ء میں ہی قبضہ کر لیا تھا۔
اس پہاڑ پر قبضہ کرنے کی وجہ سے بھارتی فوج کو زبردست سٹریٹیجک برتری حاصل ہو گئی ہے۔ اور کوٹلی تک کا علاقہ ہاتھ کی ہتھیلی کی مانند سامنے نظر آتا ہے۔
پہاڑ کی بلندی کی وجہ سے کبھی کبھار دسمبر اور جنوری کے مہینوں میں برف بھی پڑ جاتی ہے ۔
تحصیل کھوئی رٹہ کے بیشتر گاؤں اسی وادی میں ہیں کھوئیرٹہ شہر ایک بڑا تجارتی مرکز ہے۔ گرچہ علاقے کی اپنی پیداوار اپنی ضرورت بھی پوری نہیں کرتی لیکن پاکستان کے مختلف علاقوں سے تجارتی اور خوردونوش کا سامان یہاں فروخت ہوتا ہے۔ لوگ قدرے خوشحال ہیں۔ لوگوں کی کثیر تعداد بیرون ملک کام کے سلسلے میں جاتی ہے۔تعلیمی تناسب 90 فیصد کے قریب ہے۔ لڑکیوں لڑکوں دونوں کو تعلیم حاصل کرنے کے یکساں مواقع میسر ہیں ۔ سڑکوں کی حالت نا گفتہ با ہے ۔ٹرانسپورٹ کے ذرائع ذاتی استعمال کے لیے تو قدرے بہتر لیکن پبلک ٹرانسپورٹ موجودہ دور سے ہم آہنگ نہیں۔
وادی کی آزادی ایک ایسا خواب ہے جو آر پار رہنے والے کبھی نہیں بھول پائے۔ اور اس خوبصورت وادی کو دو لخت زمینی طور پر کیا گیا ہے ۔لیکن جب تک آنکھیں دونوں طرف سے پیر بڈھیسر کو دیکھتی رہیں گی ۔دونوں طرف تڑپ رہے گی۔ کیونکہ دل ایک جیسے دھڑکتے ہیں۔اور یک زبان ہو کر گنگناتے ہیں
خواب بہشت کا دیکھ رہا ہوں
صاف بہشت کو دیکھ رہا ہوں
وادی بناہ وادی بناہ
وادی بناہ وادی بناہ
میٹھا ہے لہجہ، میٹھی زباں ہے
میزباں ہم، کوئی مہماں ہے ؟؟؟
وادی بناہ وادی بناہ
وادی بناہ وادی بناہ
اونچے پہاڑوں میں گھری وادی
وادیوں میں سب سے ہری وادی
وادی بناہ وادی بناہ
وادی بناہ وادی بناہ
وادی میں بل کھائے نالہ باں
سر سبز و شاداب میداں
وادی بناہ وادی بناہ
وادی بناہ وادی بناہ

   ذوالفقار احمد عارش

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *