چوہدری محمد یوسف ۔۔۔ ایک عہد

Banah News Online

CH NAZIR


چوہدری محمد یوسف کا 17 دسمبر 1931کو اسلام گڑھ کے ایک وینس راجپوت قبیلہ میں پیدا ہوئے ۔انہوں نے ابتدائی تعلیم اسلام گڑھ کے پرائمری سکول سے حاصل کی ۔میٹرک اور انٹر کرن سنگھ کالج میرپور سے جبکہ بی اے گارڈن کالج راولپنڈی سے کی ایم اے ایل ایل بی پنجاب یونیورسٹی لاہور سے پاس کئے۔

تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ اپنی مادر علمی جو اب گورنمنٹ کالج میرپورپارٹیشن کے بعد بن چکی تھی اس میںلیکچرر 24 ستمبر1954میں بھرتی ہوئے۔اس کے بعد وہ گورنمنٹ کالج کوٹلی کے انٹرسے ڈگری ہونے تک پرنسپل رہے ۔ 2مئی 1973کو وہ ترقی کر کے ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز مظفرآباد بن گئے ۔اس کے بعدانہیں افغل پور ایجوکیشن کالج کا پرنسپل بنایا گیا۔25جولائی کو 1978کو وہ چئیرمین تعلیمی بورڈ میرپور تعینات ہوئے ۔5جنورئی 1981کو ناظم اعلیٰ تعلیمات کالجز مظفر آباد بن گئے۔15دسمبر1987تا 31دسمبر 1991
آزاد جموں و کشمیر کے سیکرٹری تعلیم رہے اور اس عہدے سے وہ ریٹائرڈ بھی ہوئے ۔2001میں وہ سردار سکندر حیات کی حکومت میں مشیر تعلیم لگایا گیا ۔جب انہوں نے ایڈہاک بھرتیاں بھی انٹرویو اور میرٹ کی بنیاد پر کیں تو سیاسی لوگوں کو خاصی تکلیف پہنچی انہوں نے جلد ہی استعفیٰ دے دیا۔
تعلیمی میدان میں ان کی خدمات پر پنجاب ٹیکسٹ بورڈ کی طرف سے شیلڈ،حکومت پاکستان کی طرف سے گولڈن جوبلی کے موقع پر سرٹیکیٹ 1999میںانہیں حکومت پاکستان کی طرف سے میرٹ سرٹیفکیٹ ارو کیش ایوارڈ سے نوازا گیا ۔
میری یہ خوش قسمتی تھی کہ میں کشمیر ماڈل کالج کی اولین کلاس کاطالبعلم رہا ہوں ۔اور ان کی شخصیت کے مختلف پہلوکا قریب سے مشاہدہ کیا۔پہلے سال سے ہی کالج میںانہوں نے آٹھویں سے فرسٹ ائیر تک سخت میرٹ کی بنیاد پر داخلے دیے جو میرٹ پر نہیں آتا تھا چاہے ان کا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو کسی کی جرات نہیں تھی کہ وہ ان سے سفارش کر سکے۔انہوں نے پی ایس سی کی طرز پر انٹرویو کے ذریعہ پاکستان و آزاد کشمیر سے محنتی ،ذہین اور قابل اساتذہ بھرتی کئے۔انہیں گونمنٹ سکیل کے مطابق تنخواہیں ادا کیں ایک سالہ معائدہ کی مکمل پاسداری ہوتی ۔جب کوئی سرکاری جاب میں یا باہر چلا جاتا پوری تنخواہ مع commmuteکے ادا کر دی جاتی ۔پہلے سال کم طلباء کی وجہ سے آمدن اتنی نہیں تھی انہوں نے کالج کے سارے اخراجات خود برداشت کئے مگر اصولوں پر سمجھوتہ ہ نہیں کیا ۔آج کل جو سلوک نجی شعبہ سٹاف کے ساتھ مالکان کا ہوتا ہے اس سے خوف آتا ہے غلاموں ک طرح کا رویہ ہوتا ہے ۔
کشمیر ماڈل کالج B2سیکٹر کی ایک کو ٹھی میں 1993 میںکھولا گیا اس کالج میں پورفیسر چوہدری نذیر جو ان کے بھانجے تھے وہ پارٹنر تھے دو و گلیاں چھوڑ کر اسی سیکٹر میںاوپرچوہدری صاحب کا ایک سادہ سا گھر تھا ۔جہاں ہم طلبا ء نیں سے جب بھی کوئی جاتا تو چوہدری صاحب مہمان خانے میں رکھا فروٹ ہمیں خود کاٹ کر پیش کرتے جیسے ہم کوئی وی آئی پی ہیں اور ہم بھی جو ملتا اسے چٹ کر جاتے ۔ چوہدری صاحب ریٹا ئرمنٹ کے بعد کوشش کرتے رہے کہ گورنمنٹ کوئی مناسب قیمت پر جگہ الاٹ کر دے وہ کالج کیلئے وسیع کھیل کا میدان لائبریری ،لیبارٹری گویا وہ تمام سہو لیات جو ایک مثالی درسگاہ کی ہوتی ہیں وہ مہیا کرنا چاہتے تھے مگر سردار عبدالقیوم خان کی حکومت کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔انہیں مجبوراََ کرائے کی عمارت میں ہی کالج کی بنیاد رکھنا پڑی۔ہم دور دراز کے طلباء کالج کی ہی عمارت میں رہائش پذیر تھے ۔رات کو ہم سفر کی تھکاوٹ اور گھر سے دوری کی وجہ سے انتہائی پریشان تھے ہم سب اجنبی ایک دوسرے کامنہ تک رہے تھے کوئی کسی سے بات نہیں کر رہا تھا اتنی دیر میں عشاء کے بعد چوہدری صاحب کالج میں آ گئے وہ ہم سب میں گھل مل گئے ہم ایسے ان کی باتوں میں مگن ہوئے کہ سب بھول گئے ۔مگراگلی صبح جب ہم کالج کیلئے نوابوں کی طرح تیار ہو رہے تھے جبکہ ناشتہ میز پر ٹھنڈا ہو رہا تھا کلاس کا وقت ہو چکا تھا اتنے میں چوہدری صاحب کی آمد ہو گئی انہوں نے ہم سب کی وہ عزت افزائی کہ کہ آج بھی کبھی کام سے لیٹ ہوں تو وہ میٹھی میٹھی ڈانٹ یاد آ جاتی ہے۔
بیسمنٹ میں انڈور گیمزٹیبل ٹینس، کیرم وغیرہ ہوتی تھیں دوسری طرف لیبارٹری تھی ۔جس میں شیشے کے سامان کوکبھی بے احتیاطی سے توڑ دیتے تو کسی نے ڈانٹا نہیں ۔ڈائننگ ہال میں ٹی وی بھی تھا چوہدری صاحب ٹی وی پر چلنے والے پروگرام کلاس میں ڈسکس کرتے ۔طارق عزیز نے جب شارجہ سے نیلام گھر پروگرام انگریزی لباس میں ملبوس خواتین کے ہمراہ کرنا شروع کیا تو دوسرے د ن وہ کلاس کہنے لگے پاکستان ایک اسلامی ملک اس کا نقاب بھی انہوں نے اتار دیاہے ۔
ساجد ہاسٹل کاباورچی تھا جو لکنت کی وجہ سے رک رک کر بولتا تھا کے ہاتھ میں وہ ذائقہ تھا کہ کھانا کھاتے وقت ماں یاد آ جاتی ۔جس دن موٹھی چاول پکتے اس دن سب ہم چٹ کر جاتے تھے ۔چوہدری صاحب خود آ کر کبھی ہمارے ساتھ کبھی ناشا کرتے تو کبھی لنچ یا ڈنر رکرتے یہ دیکھنے کیلئے کہ کھانے کا معیار کیسا ہے ۔کھیل کے وقت ہم سب کو ہدائت تھی کہ ہم کھلیں کالج کے لان میں ایک طرف ہاکی اور بیڈ منٹن کے کورٹ تھے ۔دوسری طرف امرود کے درخت تھے۔
چوہدری صاحب کا مطالعہ اس قدر وسیع تھا کہ ان کے ذاتی زیر مطالعہ کتابوں سے آدھی سے زیادہ لائبریری بھری پڑی تھی ان میں سے اکثر کتب بلند پایہ ادیبوں کی طرف سے اپنے دستخطوں سے چوہدری صاحب کو تحفے میں پیش کیا گیا تھا
ریٹائرڈ ناظم تعلیم راجہ عبدالحمید جو چوہدری صاحب کے دیرنہ دوست تھے اور چوہدری صاحب ان کا نتہا سے زیادہ احترام کرتے تھے ۔وہ کالج میں پڑھانے کے بعد سٹاف روم میں سیگریٹ پیتے تھے باقی کبھی کسی کوسیگریٹ پیتے نہیں دیکھا ۔
ایک دن ریاض صفائی کر رہا تھا دھول دھپا اس سے صاف نہیں ہو رہا تھا چوہدری صاحب نے ٹاکی اس کے ہاتھ سے لے کرخود پہلے ڈیسک کو جھاڑا پھر اسے صاف کیا ۔اس کے بعد کہنے لگے ریاض ایسے صاف کرو۔صبح سویرے وہ کلاس کے ڈیسک پر انگلی پھیر کر صفائی چیک کرتے تھے۔
گیارہویں جماعت میں وہ ہفتہ کے3دن اسلامیات اور3 دن کشمیر کی تاریخ پڑھاتے یہی سلسلہ سیکنڈ ائر میں جاری ری رہا ۔تین دن مطالعہ پاکستان اور 3دن مطالعہ کشمیر ۔انہوں نے اپنے نوٹس تیار کئے ہوئے تھے ان میں سے پڑھاتے تھے ۔وہ چلتی پھرتی کشمیر کی تاریخ تھے چپے چپے کے بارے میں جانتے تھے کون اس خطے کی خاطر قربان ہوا ۔کس نے اسے آزاد کروایا۔اس وقت توہم نے ان کی تعلیمات پر کچھ خاص توجہ نہیں دی بعد میں زندگی میں پچھتاوہ ہونے لگا کہ کاش کشمیر کی تاریخ پہ توجہ دی ہوتی۔ایک دن ان کی تحریر کردہ کتاب ’’جدو جہد آِزادی کشمیرــــ‘‘ میرپور کے ایک بک سٹورسے مل گئی جسے پڑھ کروہ سب پرانے سبق یاد آ گئے اور پچھتاوہ کچھ کم ہوا۔ چوہدری صاحب دراز قد تھے گھنے سیاہ سفید بالوں کو پیچھے موڑتے تھے انہوں نے مکھی مونچھ رکھی ہوئی تھی جو ان کی وجاہت میں اضافہ کرتی تھی شلوار قمیص پر ویسٹ کوٹ پہنتے کبھی کبھار سفاری سوٹ میں ملبوس نظر آتے
ا ن کی بڑی بیٹی ڈاکٹر تھیں جبکہ بیٹا طاہر منگلا میں انجنیر تھے گزشتہ دنوں انجنئیر طاہر یوسف کی وفات کا سن کر دلی صدمہ ہوا ۔ عامر یوسف ادارے کے ساتھ منسلک ہیں ان چھوٹی بیٹی ایم ایس سی کرنے کے بعد برطانیہ منتقل ہو گئی ٰتھیں۔
محمد یوسف چوہدری نے مختلف حکمرانوں کے ساتھ کام کیا ۔وہ کے ایچ خورشید اور سردار سکندر حیات کے زیادہ قریب رہے ۔چیف جسٹس ہائکورٹ عبدالمجید ملک بھی ان کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔
جیسی زندگی چوہدری صاحب نے اصول پسندی والی گزاری ہے ایسی زندگی کی کوئی محض خواہش ہی کر سکتا ہے۔ایجوکیشن کالج افضل پور،تعلیمی بورڈ میرپور ،گورنمنٹ کوٹلی کالج کو انہوں نے ہی پودے سے تناور درخت بنایا ۔کشمیر ماڈل کالج سے ہزاروں کی تعداد میں بیوروکریٹس،ڈاکٹر،انجنئیر،سیاستدان ، ماہرین تعلیم اور سکالرفارغ ہو چکے ہیں ۔ان سب کے کردار میںمحمس د یوسف چوہدری کی جھلک ضرور نظر آتی ہوگی ۔

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *