وادیِ بناہ سے شہر مدینہ تک
تحریر: Zulfiqar Ahmed Aarish

ایک مسلمان کے گھر پیدا ہونا یقیناً اللہ کا خاص کرم ہے، مزید سعادت یہ کہ آپ کے کان میں پہلی آواز ہی اذان کی گونجنے لگے۔ (اللہ اکبر) کہ اللہ ہی بڑائی والے ہیں۔یہ سچ آپ کو پیدا ہوتے ہی معلوم ہو جاتا ہے. (أَشْهَدُ أَنْ لَّا إلٰهَ إلَّا اللّٰهُ ) میں گواہی دیتا ہوں کہ صرف اللہ ہی حقیقی معبود ہیں. (اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمّداً رَّسُوْلُ اللہ) میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں . اور آخری رسول ہیں. جیسا کہ “لانبی بعدی” سے واضح ہے۔ آپ جس دور میں پیدا ہو رہے ہیں ۔اس دور کےآخری نبی کی گواہی آپ تک پیدا ہوتے ہی پہنچ رہی ہوتی ہے۔
ورنہ کبھی کبھی اس کرم تک پہنچنے کے لیے زندگیاں بیت جاتی ہیں۔ اور لاکھوں تکلیفوں سے گزرنا پڑتا ہے۔اللہ تعالی کی توفیق اور اس کی عطا کردہ عقل سلیم کی طاقت ہی اس روشنی اور راہ حق کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ یہ تبھی ممکن ہے جب نصیب میں ہدایت ہو،اور کیا ہی کمال خوش نصیبی ہے کہ آپ کو گھرانہ اور وطن،اسلام پر عمل کرنے والے ملیں اور آپ باعمل مسلمان ہونے میں آزاد ہوں۔
انعامات باری تعالیٰ میں سے ایک انمول انعام یہ کہ اللہ تعالیٰ نے والدین کو آپ کے لیے سائبان بنا دیا۔والدین حیات ہوں تو زندگی میں سخت موسموں کی شدت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔زمانے کی جھڑکیاں نہیں سہنی پڑتیں۔ چھوٹی چھوٹی خواہشات بغیر اظہار کیے مل جاتی ہیں۔ بنیادی سہولیات ،تعلیم، تربیت کے لیے وہ تگ ودو نہیں کرنی پڑتی جو ایک بے سہارا برداشت کر رہا ہوتا ہے۔اس نعمت کا بھی جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے۔اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ بڑا مہربان ہے وہ کریم ہستی ہی پالنے اور سنبھالنے والی ذات ہے۔
جیسا کہ سورۃ الضحیٰ میں اللہ تعالی نے اپنے پیارے محبوب سے فرمایا
اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَاٰوٰی
“کیا اس نے نہیں پایا آپ کو یتیم پھر پناہ دی”
ذات الہی سنبھالنے والی ہے اور وہی ذات زمانے کے دل میں آپ کے لیے آسانی اور الفت ڈال دیتی ہے۔
ہم گھر سے باہرنکلیں تو ہماری ملاقات اس معاشرے میں بسنے والے افراد سے ہوتی ہے۔اگر معاشرہ مثبت اور دوست ہو تو اس کا انسان کی زندگی پر بڑا اچھا اثر پڑتا ہے اور بلوغت کے پروان چڑھنے کی سیڑھیاں آپ کو سربلندی کی طرف لے جاتی ہیں۔
تحفہ خداوندی ہے کہ آپ عبادات میں آزاد ہوں،اچھی تفریح کے مواقع میسر ہوں، ہم خیال، ہم عمر ،مثبت اور دوست طبعیت کے حامل ہوں۔ درسگاہوں میں آپ کو اتنی اچھی تعلیم کے مواقع ملیں کہ آپ زمانے کی سربراہی کے لیے تیار ہو سکیں۔
اگرچہ دیہی علاقوں میں سہولتوں کے فقدان،طریقہ تعلیم اور فرسودہ نصاب کی وجہ سے موجودہ زمانے سے کماحقہ ہم آہنگ ہونے میں تشنگی رہ جاتی ہے۔اور ایسے ہم مکتب جن سے دلی لگاؤ قائم ہو جاتا ہے وہ اس فرسودہ نظام کی وجہ سے ساتھ چھوڑتے جاتے ہیں۔بہت کم دوست آگے تک تعلیمی میدان میں ساتھ چلتے ہیں۔ ان حالات میں قابل اساتذہ جو وسائل اور علم کے مطابق ہمارے ذہنوں کو سیراب کرتے ہیں نہ وہ اساتذہ کبھی بھول پاتے ہیں ،نہ وہ کلاس فیلو جن کے سامنے آپ مصنوعی طرز زندگی نہیں اپناتے اور جن سے دلی قربت ہو جاتی ہے یقینا یہ ہمیشہ یاد رہتے ہیں یہی دوست ہمارے وقت اور ہماری شخصیت پر بھی اثر چھوڑتے ہیں۔ اگر ان ہم مکتبوں کی تربیت اچھی ہوئی ہو ۔اور ان کی گفتگو ،رہن سہن اور تہذیب سنوری ہوئی ہو ، تو آپ بھی وہی عادات اپنا لیتے ہیں۔چناچہ اس حوالے سے ارشاد نبوی ہے “اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ” یعنی انسان اس کے ساتھ ہوگاجس سےوہ محبت کرے۔(صحیح مسلم) نیز فرمایا:’’اَلْمَرْءُ عَلیٰ دِیْنِ خَلِیْلِہ فَلْیَنْظُرْ اَحَدُکُمْ مَنْ یُّخَالِلُ‘‘یعنی آدمی اپنے دوست کے دِین اور اس کے طور طریق پر ہوتاہے، لہٰذا ضروری ہے کہ تم دیکھو کہ کس سے دوستی رکھتےہو۔(المسند لامام احمد بن حنبل)
انسان لڑکپن کی عمر میں ذرا لاپرواہ ہوتا ہے جس طرح اس عمر میں بیرونی عوامل چوٹ، زخم ،سخت موسم زیادہ تکلیف نہیں دیتے۔اسی طرح کسی کی نصحیت ،سیدھی راہ پر چلنے کی تلقین بھی کم ہی اثر کرتی ہے .کیا ہی کمال لوگ ،نیک روحیں ہوتی ہیں جو ایسے موقع پہ نصیحت پکڑتے ہیں۔بڑوں کے تجربوں کو محض سننے نہیں بلکہ ان سے مستفید ہوتے ہیں اور دوبارہ غلطیوں کو دہراتے بھی نہیں اور اچھائیوں کو اپنی ذات کا جزو اور محور بنا لیتے ہیں۔جوانی کے اس پر پیچ و پر خم راستے میں بھٹکتے نہیں بلکہ اپنی منزل پا لیتے ہیں۔اس سفر میں آپ کے گھر کے افراد،تعلیمی اداروں کا ماحول، اساتذہ، دوست اور خود کی ذمہ داریوں کے کردار کو بروقت اور احسن طریقے سے نبھانا، ان سب عوامل کا کردار بڑا واضح ہے۔
ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا یہ یقین ہے کہ لوح محفوظ میں ہمارا کردار، دورانیہ، انجام سب طے ہے۔اور یہ حقیقت جب انسان سمجھ لے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو توفیق میسر ہے وہی میرا مقدر ہے ، اسے سنوارنے کی فوری حتی الامکان بھر پور کوشش کرے۔ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھا نہ رہے ۔اور یہ یقین بنائے کہ جو ہو رہا ہے وہ تقدیر میں لکھا ہوا ہے اور اسے فوری کمال تحسین کے ساتھ ادا کرتا چلا جائے کہ یہی موقع اس کے بس میں ہے جو دوبارہ ہاتھ نہیں آنا۔ یہ نہ سمجھے کہ بس جو لکھا جا چکا ہے وہی ہونا ہے لہذا مجھے کسی محنت اور کوشش کی ضرورت نہیں یہی کاہلی اور سستی ہے۔ایک شاعر نے اس حقیقت کو یوں آشکارا کیا کہ
نامی کوئی بغیر مشقت کے نہ ہوا
سو بار جب عقیق کٹا تب نگیں ہوا
خالق کائنات جانتا ہے کہ میری یہ تخلیق میرا یہ بندہ کیا کرے گا ۔اللہ نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا،خلیفہ بنایا تو بہت سی خوبیاں اور کمالات ہم میں رکھ دیے اگر ہم اپنے اندر کی خوبیوں کو پرکھ لیں ،ماحول سازگار ہو ،اور ہمیں ان خوبیوں کو حقیقی طور پہ استعمال کرنے اور چمکانے کا موقع مل جائے تو ہمیں نہ صرف زندگی کی ڈائریکشن مل جاتی ہے۔ بلکہ کامیابی کا سفر جس کو طے کرنے میں لوگ سالوں لگاتے ہیں آپ چند مہینوں میں پار کر سکتے ہیں ۔
اپنے خلیفہ کے لیے اللہ نے اس کائنات کو مسخر کر دیا ہے۔ اور اسےایسا علم عطا کیا کہ اس کی عظمت پر فرشتے بھی نازاں ہیں۔
یہاں یہ بات قابل غور ہے جیسا کہ اسی حقیقت کو اوپری چند سطروں میں بھی اجاگر کیا گیا کہ کچھ کم فہم لوگ اپنے گمان کو بھی اس طرف لے جاتے ہیں کہ جب رب کائنات نے سب لکھ دیا تو پھر ہونا تو وہی ہے, یا یہ سوچنے لگتے ہیں کہ انسان کا دن بدن جو عروج ہے وہ اسکو زوال کی طرف جانے کا راستہ ہے. یہ بات یاد رکھیں کہ چیونٹی زمین پر چلتی ہے۔ مکھی اڑ سکتی ہے۔ فرشتے گناہ نہیں کرتے اور رب کریم کا حکم بجا لاتے ہیں۔ انسان کو اللہ نے خلیفہ ہونے کا شرف بخشا۔ اور وہ علم عطا کیا جو دوسری کسی مخلوق کو نہیں دیا جس کو بروئے کار لا کر وہ دنیا کے ہر میدان میں جوہر دکھا رہا ہے ۔اور شاید کہ یہ آغاز ہے۔ ابھی تو خلیفہ دیے گئے علم سے کائنات کے رازوں کو جانے گا، پرکھے گا ۔ مگر یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم نے ذرے کو ٹٹولا ۔زمین کو پرکھ لیا۔ بلکہ پرکھ رہے ہیں۔ چاند پر کمند ڈال لی۔ مگر ابھی سمجھ لیں کہ یہ آغاز ہے ابھی ہم نے ذرے کا طواف دیکھا ہے۔ ابھی گلیکسیز اور تمام نظام کو طواف کرتے دیکھیں گے۔
ایسے میں یہ بات سجدہ ریز اور شکر بجا لانے کے لیے کافی ہے ۔ کہ ہمیں رب کریم نے تمام مخلوق میں عظمت دی ۔عزت دی اس حقیقت کو “ولقد کرمنا بنی آدم۔۔۔”سے بیان کیا ۔رب کریم کو بھی اپنے خلیفہ پر مان ہے کہ مخلوقات کے اعتراضات کو رد کر کے کہا جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے ۔ اب خلیفہ پر بھی بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے رب کے احکامات کو مان کر اس کے مان کا مان رکھے اور مان رکھنے کی مختلف شکلیں ہیں جن میں سے ایک پر لطف جھلکی کسی بندہ مومن کا اپنے گھر سے اللہ کے گھر جانے،اور اپنی بستی و قریہ سے شہر مدینہ پہنچنے،پھر سرور عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے روضہ اقدس پر عقیدت بھرے درود وسلام پیش کرنے میں دکھائی دیتی ہے۔یہ پر نور حلاوتیں ہر مومن کا مقدر رہیں۔